حالات نے پڑھائی چھوڑ کر نوکری کرنے پر مجبور کر دیا
سوال: میں ایک غریب خاندان کا چشم وچراغ ہوں۔ پانچ سال ہوئے کہ میرے والد فوت ہو گئے۔ میں خاندان کے دس افراد میں سب سے بڑا ہوں۔ مجھے ڈاکٹر بننے کی خواہش تھی لیکن ایف ایس سی کے بعد حالات سے مجبور ہو کر ملازمت اختیار کرنی چاہی لیکن کم تعلیم کے باعث کامیاب نہ ہو سکا۔ اس لئے بی ایس سی میں داخلہ لے لیا۔ بی ایس سی کے بعد وظیفہ بھی مل گیا اور میں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا لیکن گھر کے حالات کہتے ہیں کہ تعلیم چھوڑ کر ملازمت کر لو۔ سوچتا ہوں کہ پانچ سال تک میرے گھر والے کیا کریں گے کس طرح گزارہ کریں گے؟نیز میں شاعر اور فلسفے سے بھی لگاﺅ رکھتا ہوں اور شعر بھی کہتا ہوں علاوہ ازیں سیاست سے بھی دلچسپی رکھتا ہوں اور کمیونزم کی طرف مائل ہوں۔ از راہ کرم میری رہنمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں۔(ایم اے خان )
جواب:محترم ایم اے خان صاحب! آپ کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ آپ تعلیم جاری رکھیں یا حالات کے پیش نظر نوکری کر کے چھوٹے بھائی بہنوں کو پروان چڑھائیں۔ یہ درست ہے کہ آپ کے حالات آپ کو اخلاقی طور پر مجبور کر رہے ہیں کہ آپ تعلیم منقطع کر کے نوکری کر لیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے کتنا فائدہ ہو گا اور کتنا نقصان؟ فرض کیجئے کہ آپ کسی وجہ سے اپنے چھوٹوں کی سرپرستی سے معذور ہو جاتے ہیں تو پھر کیا ہو گا؟ کیا وہ فاقوں مر جائیں گے؟ کیا ان کا کوئی دیکھ بھال کرنیوالا نہ ہو گا؟ ظاہر ہے کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آئیگی تو پھر آپ جبکہ اچھا ذہن رکھتے ہیں اور وظیفہ لیتے آئے ہیں تو اپنے اس ذہن، اپنی اس خوبی کو یوں منجھدار میں کیوں چھوڑتے ہیں۔ آپ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنے بھائی بہنوں کے لئے زیادہ بہتر ثابت ہو سکتے ہیںبجائے اس کے کہ آپ موجودہ معمولی تعلیم کے بل پر چند سو کی نوکری کرنے لگیں۔
اب رہا یہ سوال کہ آپ ڈاکٹر بنیں یا آرٹ کی طرف جائیں ۔ بلا شبہ ذہنی رجحان کا مستقبل سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے لیکن جو شخص ذہین ہو وہ اپنے رجحان کو موڑنے کی بھی قدرت رکھتا ہے اگر آپ ڈاکٹر بن سکتے ہیں تو ضرور بنئے، محنت کیجئے۔ ایک ڈاکٹر شاعر بھی ہو سکتا ہے، فلاسفر بھی اور سیاست دان بھی مگر یہ تینوں بعد ازاں ڈاکٹر نہیں بن سکتے یعنی شاعر، فلاسفر اور سیاسیدان ڈاکٹر نہیں بن سکتے۔ سردست میں آپ کو یہی مشورہ دونگا کہ آپ ڈاکٹر بن جانے کے بعد شاعری، ادب، سیاست وغیرہ پر غور کریں۔ یہ فنی علم ہے اور طالبعلم کا زیادہ سے زیادہ وقت چاہتا ہے اگر آپ ڈاکٹری کی تعلیم کے ساتھ شادی کرنا چاہیں گے تو ظاہر ہے اس تعلیم کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ اس لئے یہ سب کچھ تعلیم مکمل کرنے تک اٹھا رکھیں۔ رہی بات مذہب سے دور ہٹنے اور کمیونسٹ بننے کی تو محترم اس کا فیصلہ بھی آپ کی عقل سلیم کرے گی۔ آپ کو ابھی سے کسی اصول کی طرف نہیں مڑنا چاہئے۔ سب سے پہلے مذہب کا مطالعہ کیجئے اس کے بعد اگر دوسرا فلسفہ زندگی آپ پر اثر انداز ہوتا ہے تو یہ آپ کی عقل و شعور کے معیار کے مطابق ہو گا۔لیکن یہ غلط ہے کہ آپ دین کا مطالعہ کئے بغیر دوسرے فلسفے کو قبول کر لیں۔ کمیونزم اپنے اندر خامیاں رکھتی ہے جن کا ظہور چین اور روس میں ہو چکا ہے۔ اس لئے کسی فلسفہ حیات کو اپنانے سے پیشتر اس کے ہر پہلو پر غور کر لینا ضروری ہے۔ اکثر اوقات چمکنے والی چیز نظر کا فریب بھی ہوتی ہے۔ سونا خریدنا چاہتے ہیں تو کسوٹی کے ماہر بنئے پھر ہی آپ کھرے کھوٹے کی پہچان کے اہل ہو سکیں گے ورنہ پیتل کو سونا سمجھ کر خرید لیں گے۔ ہماری موجودہ پود کی سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ وہ اپنے دین، اپنے فلسفہ حیات سے لاعلم ہوتی ہے اور دوسروں کا فلسفہ حیات جلد قبول کر لیتی ہے۔ اس میں قصور ہمارے دانشوروں کا بھی ہے جو موجودہ نسل کو دین کی صحیح تعلیم دینے میں کاہلی برت رہے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہو گا کہ نئی پود پیتل خرید لے گی اور پھر ساری عمر اس پر پالش کرتی رہے گی۔ ایک فرد کی حیثیت سے آپ اسلامی فلسفہ حیات کا مطالعہ کیجئے اور پھر دیکھئے کہ قصور اسلام کا ہے یا موجودہ مسلمانوں کا؟
کبھی فرصت ملے تو
سوال:بچپن سے ہی اپنے سکول میں ایک لڑکی سے محبت کرتا تھا۔ وہ میٹرک میں آئی اور اس کی شادی ہو گئی۔ میرے گھر والے تو میری شادی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اب میں نوکری کر رہا ہوں۔ خاندان ہی کی ایک لڑکی سے منگنی ہوئی ہے وہ مجھ سے باتیں کرنا چاہتی ہے مگر مجھے کبھی فرصت ملے تو اس سے بات کروں۔ میں نے تو خود کو اس قدر مصروف کر لیا ہے کہ اس لڑکی کا خیال نہ آئے جسے کبھی معصومیت میں چاہا تھا۔(سراج احمد....جہلم)
مشورہ:آپ کے ساتھ کچھ غیر معمولی نہیں ہوا۔ حالات اور واقعات کی ترتیب ٹھیک ہی ہے۔ وقت سے پہلے محبت اور پھر شادی نہ ہونے کا افسوس اب ختم ہو جانا چاہئے۔ اچھی بات ہے گھر والوں نے منگنی کر دی ہے ۔ اپنی منگیتر کے حوالے سے اچھے خیالات ذہن میں لائیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پرانی محبت کبھی خوش گوار رہی ہو گی، اب تو آپ کے ذہن پر اس سے بوجھ ہی ہو رہا ہے۔ نئے رشتوں کی قدر کرتے ہوئے آنے والے اچھے دنوں کو دل کی خوشی سے محسوس کریں اور پر سکون رہیں۔
صحبت غلط ملی
سوال:میرے بیٹے کی عمر 15سال ہے، وہ سگریٹ پینے لگا ہے۔ شوہر سے کہتی ہوں تو وہ یقین نہیں کرتے۔ ویسے بھی وہ گھر میں کم وقت گزارتے ہیں اورسارا دن ملازمت پر ہوتے ہیں۔ شام کو آنے کے بعد اپنی والدہ کے گھر چلے جاتے ہیں۔ بچہ بگڑ رہا ہے اسکی انہیں فکر نہیں۔(مہ جبیں ....کوئٹہ)
مشورہ:آپ کے شوہر کو چاہئے کہ بیٹے کو زیادہ سے زیادہ وقت اپنے ساتھ رکھیں۔ جو بچے باپ کی قربت میں وقت گزارتے ہیں، ان میں دوستوں کی برائیاںنہیں آپاتیں۔ وہ اپنی والدہ کے گھر ضرور جائیں، ساتھ میں بیٹے کوبھی لے جائیں۔ اس طرح انہیں بیٹے کے ساتھ کچھ وقت گزارتے ہوئے یہ اندازہ ہو جائے گا کہ وہ کون سی نئی عادات اپنا رہا ہے یا اس کی شخصیت میں کیا خرابیاں آرہی ہیں۔ آپ بھی خیال رکھیں کہ وہ کن لڑکوں کے ساتھ رہتا ہے۔ بچوں کے بگڑنے میں برے دوستوں کا دخل ہوتا ہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 907
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں